جماعت اہل حدیث کی گمشدہ سلسلہ سند آخر کا ر مل ہی گئی

زیادہ دیکھی جانے والی

Tuesday 20 May 2014

Masla Taqleed Qurran Pak Ki Roshni Maen


قرآن اور تقلید
اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں اطاعت ، اتباع اور حکم میں تین درجے بیان فرمائیں ہیں۔
اطاعت 
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:۔اَطِيْعُوا اللّٰهَ۔ اللہ کی اطاعت کرو۔وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ۔اور رسو ل کی اطاعت کرو۔وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ (النساء ۵۹)،اور جو لوگ اہل استنباط ہیں، خود قرآن نے اس کا معنٰی بتایا ہے۔  اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ (النساء83) ۔ مستدرک علی الصحیحن میں لکھا ہے قال ابن عباسؓ اولی الامر سے  اہل فقہ اور اہل دین مراد ہیں جو لوگوں کو العمل بالمعروف والنهي عن المنكر کریں تو  اللہ تعالٰی نے ان کی اطاعت واجب کردی ہے“ ۔(مستدرک علی الصحیحین جلد اول ص۲۱۱)
اتباع 
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں۔اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ (سورۃ الاعراف ۳) اللہ کی طرف سے جو کتاب نازل ہوئی ہے اسے مان لو۔ پھر  فرمایا۔  قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (سورۃ آل عمران ۳۱) اے اللہ کے نبی آپ اعلان کر دیں کہ جب تک تم میری اتباع نہیں کرو گے، خدا کے پیارے نہیں بن سکتے۔ اور اسی قرآن میں تیسری آیت ہے۔  وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ (سورۃ لقمان ۱۵) اور تقلید کر اس شخص کے مذھب کی جو میرے طرف رجوع رکھنے والا ہے۔ ایک بات یاد رکھیں جہاں تقلید کا لغوی معنٰی ذکر کیا ہے وہ بلا دلیل بات ماننے کو کہتے ہیں، لیکن مجتہد کی بات اور قاضی کا فیصلہ بادلیل ہوتا ہے ، تو جس طرح نبی کی بات ماننے کو تقلید نہیں کہا  گیا اسی طرح مجتہد کی بات  ماننے کو بھی تقلید نہیں کہا گیا لیکن عرف میں یہ لفظ مجتہد کے لئے خاص ہو گیا ، جو مجتہد کی با دلیل بات کو  مانے گا اس کو مقلد   کہتے ہیں اسلئے تقلید مجتہد کی تعریف وہی اتباع و اطاعت کی ہے۔ 
حکم 
اسی طرح اللہ تعالٰی نے حکم کے بارے میں تین قسم کے احکام دیئے ہیں۔ 
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ (سورۃ الانعام ۵۷) حکم صرف اللہ کا ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ (سورۃ النساء ۶۵)۔ یعنی نبی بھی حَکم ہے، منکرین حدیث کہتے ہیں ہم نہیں مانتے، اسی قرآن میں تیسری آیت ہے۔يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا  لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ  (سورۃ مائدہ ۴۴) ۔۔۔اور حکم کرتے ربانی۔۔ ۔ بخاری میں لکھا ہے کہ ربانی کے معنٰی فقیہ ہوتے ہیں۔ وقال ابن عباس کونواربانین حکماء علماء فقھاء(بخاری)۔ قرآن نے فقیہ  
کو بھی حاکم قرار دیا ہے۔
اس کے مقابلہ میں غیرکے مقلدین اس قرآن سے ایک آیت  بتا دیں، یہ نہ بتائیں کہ کافروں 
کے پیچھے نہ جاؤ، مشرکوں کے پیچھے نہ جاؤ ، گناہ گاروں کے پیچھے نہ جاؤ، ہمیں اس قرآن  میں سے ایک آیت یہ سنا دیں کہ مجتہد کی تقلید کرنا، اولی الامر کی بات ماننا، اہل اتباع کی اتباع کرنا، اہل استنباط کی طرف رجوع کرنا ، مجتہدین کو اپنا حَکم سمجھنا یہ بدعت ہے ، شرک  ہے کفر ہے جو بھی ہے یا قرآن پاک نے کم از کم اس سے منع کر دیا ہے۔ ہم پوری ذمہ داری کہتے ہیں خدا کی قسم اس پورے قرآن میں ایک بھی ایسی آیت موجود نہیں جس میں مجتہد اولی الامر ،اہل استنباط اہل ذکر اور فقھاء کی تقلید سے منع کیا گیا ہو روکا گیا ہو۔اللہ نے جس طرح اپنی اتباع کا حکم دیا ہے، اپنے رسول کی اتباع کا حکم دیا ، اسی طرح مجتہد کی اتباع کا حکم دیا،جسے قرآن اولی الامر کہتا ہے، جسے قرآن اہل استنباط کہتا ہے۔
 

----------------


يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ؀

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا، اور حکم مانو رسول اللہ ﷺ کا، اور اولی الامر (مجتہد حاکم )کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول ﷺکے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔
(سورۃ النساء ۵۹)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے، رسول اللہﷺ کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے اور اولی الامر کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے، اور   اگر دو بندوں میں اختلاف  ہو  جائے ایک کہے کہ یہ مسئلہ یوں ہے  دوسرا کہے کہ یوں نہیں یوں ہے تو پھر حاکم ا للہ اور اس کے رسول  کی طرف رجوع کرکے اس کا فیصلہ کرے۔ اور جو وہ فیصلہ کرے تو مونین کو چاہے کہ وہ اسے تسلیم کریں۔

اور اگر اولی الامر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ سے صراحت نہ ملنے  پر  اپنی اجتہادی قوت سے کسی ایک مسئلہ  کو اپنا لے یا پھر  احکام شرعی معلوم کرنے کیلئے اجتہاد کرے   تو پھربھی  اس کی اطاعت کرنی اللہ کے اسی حکم  میں شامل ہےاور  اسکی اطاعت کرنی ہمارے اوپر فرض کے بعد  واجب  کا درجہ رکھتی ہے  کیونکہ اجتہاد ضروریات میں سے ہے اور جس مسئلہ میں مجتہد اجتہاد کرے گا تو اس میں وہ  ماجور ہے معصوم نہیں اس سے خطا بھی ہو سکتی ہے، جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ :”جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر حکم دے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور غلط ہو تو اس کو ایک اجر ملے گا“۔(صحیح بخاری ج۳ح؛ ۲۲۵۲)

ائمہ مجتہدین ہمارے حاکم ہیں، جنہوں نے اجتہادات کیئے ہیں  اور اہل علم فقہاء کرامؒ نے انہی کو اپنا امام تسلیم کرکے انکے اجتہادات کو اپنایا ہے اور مدون و مرتب کیا ہے اور  اسی کو اگے چلایا ہے جو کہ سمٹ کر چار میں رہ گئے ہیں۔ ہمارے مجتہد حاکم امام اعظم ابو حنیفہؒ ہیں  جن کا مذہب ہم تک متواتر پہنچا ہے، اور جن جن علاقوں میں دوسرےاہل سنت  ائمہ کے 
مذاہب پہنچے تو  وہاں کے اہلسنت انہی کے پابند ہیں  بفضلہ تعالٰی۔



اب ہمارا غیرمقلدین جو کہ نہ اجتہاد کے اہل  ہیں نہ کسی مجتہد کے مقلد ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ ہمارا اور آپ کا جگڑا اس بات میں ہو گیا ہے کہ مجتہد (اولی الامر) کے اجتہاد (بعد کتاب اللہ و سنة اللہ) اطاعت کرنی ہے یا نہیں، اسے  اللہ اور رسول کی طرف رجوع کریں اور بتائیں کہ وہ کیا فرماتے ہیں۔
-------
سوال:۔ 
تقلید مجتہد کب سے چلی آرہی ہے،  اور یہ کہاں کی جاتی ہے اور صرف ائمہ اربعہؒ کی ہی کیوں کی 
گئی۔ ائمہ نے اجتہاد کیوں کئے؟

الجواب:۔
تقلید تو ہوتی ہے اجتھاد میں اور اجتھاد نبیﷺ کے دور سے ہی چلا آرھا ھے بعض فراوعی مسائل میں احادیث مبارکہ کے اختلاف کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوا جو سینکڑوں مجتہدین صحابہ۔ البتہ مذھب مدون بعد میں ہوئے، ائمہ اربعہ رحمھم اللہ نے جب سنت نبوی کو مدون کروایا تو یہ سینکڑوں کا اختلاف سمٹ سمٹا کر چار ائمہ میں رہ گیا۔ ایسے فروعی مسائل میں مالکی ، شافعی، حنبلی کے مقابل ہم ان اجتہادی مسائل میں حنفی نام سے متعارف ہیں۔مجتہد کا اجتہاد اگر "صواب " ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں اگر خطا بھی ہو جائے تو اللہ تعالٰی ایک اجر عطا فرماتے ہیں(بخاری ،مسلم)گویا مجتہد سے خطا بھی ہوئ تو عمل یقیناََ مقبول ہے اور ایک اجر بھی یقینی ہے اور دوسرے اجر کی خدا کی رحمت سے امید ہے۔ اس کے برعکس اگر نااہل عامی(غیرمقلد) اگر رائے لگائے تو اس کے صواب پر بھی گناہ ہے اور وہ شخص گنہ گار ہے اور اس کا عمل مقبول نہیں ہے۔(نووی شرح مسلم)
۔تو پھر انہی مذھب اربعہ  میں سے ہی جس کا مذھب جہاں متواتر  ہے اسی کی رھنمائی اور تقلید لازم ہے،جیسےایک وقت میں ایک ہی کی اقتداء میں نماز ہو سسکتی ہے،اسی طرح ائمہ میں سے ایک وقت میں ایک ہی کہ اجتہاد اور مذھب پر عمل ہو گا، ان کو چھوڑ کر اپنی مرضی کی تو پھر سمجھیں شریعت سے بندہ نکل گیا۔۔۔۔۔ اس لئے ان سے پہلے والوں کے مذھب کی نہیں کی گئی۔۔۔۔۔ جیسے احادیث تو نبیﷺ کے دور سے ہیں لیکن مدون بعد میں ہوئیں۔ ان سے پہلے والوں نے کیوں اور کہاں سے ضرورت پوری کرتے رھے کیا جہاں سے انہوں نے حدیث لی وہاں سے اب لی نہیں جاسکتیں اگر حدیث ماننی ہے تو ان بعد والوں سے ہی مدون ملیں گی۔ ایسے ہی ائمہ اربعہؒ کو خدا تعالٰی نے ایسے اصحاب دیئے جو کہ ان کامذھب اگے لے کر چلے اور باقیوں کو ایسے نہیں ملے جو اگے چل سکتے اسی لئے وہ مذھب مٹ گئے اور خدا کے مارے ہوئے کو کون زندہ کر سکتا ہے۔  شریعت کی روشنی میں اجتہادی مسائل میں مجتہد پر اجتہاد کرنا واجب ہے،اگر نہیں کرے گا تو گنہگار ہو گا غیرمجتہد پر تقلید واجب ہے اور غیرمقلد پر تعزیر (سزا) واجب ہے۔

یہ تو صرف اجتھاد کی بات ہے جسے ایک فرقے انگریز کے دور میں پیدا ہونے والا نہیں مانتا لیکن غضب تو یہ ہے کہ اس کی آڑ مین اس نے ثابت شدہ مسائل کے بھی انکار کر رکھے ہیں۔ جیسے اجماعی مسائل میں تمام ائمہ اور صحابہ متفق ہیں غیرمقلد نے اس میں اختلاف کر رکھا ہے سب سے۔ اور ایسے مسائل جن میں اجتھاد حرام ہے جیسے مسئلہ طلاق ثلاثہ اس میں اپنے ذھن کے گندے اور باطل فطور سے اجتھاد کرتے ہیں اور صحابہ پر بھتان لگاتے ہیں کہ انہوں نے بھی اجتھاد کیا تھا حالانکہ اس بات کو وہ بھی مانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتھاد حرام اور ناجائز ہے۔